Add To collaction

13-Aug-2022 کوۓ تمنّا تیسری قسط ۔

کوۓ تمنّا

بقلم ماریہ اکرم خان

چوتھی قسط۔
" وجدان ! ایک بار پھر سوچ لو بیٹا اس طرح اچانک کیسے تم اتنا بڑا فیصلہ کر سکتے ہو "۔
  ۔پچھلے دو دنو میں کئی بار ادا کیا جملہ فرحین بیگم نے ایک بار پھر دہرایا ۔
اسکی بے حد ضدی اور اڑیل طبیعت سے واقف ہونے کے باوجود بھی اپنے طور اسے سمجھانے کی بھر پور سعی کر رہیں تھیں ۔ شاہ ولا کی عجیب و غریب روایات اپنی جگہ مگر فرحین بیگم کے دل میں دریکتا کے لیے خاص مقام تھا ۔ وہ دل سے اپنی بہو بنانے کے لیے رضامند تھیں ۔ تبھی اس وقت وجدان کے کمرے میں موجود اسے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کے لیے ہر صورت قائل کر رہی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وجدان اپنے کیے فیصلے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ۔ دوسری جانب زرقا بیگم اور سہراب شاہ کا کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا مگر ایک بوجھ سا تھا میر حزب شاہ اور فرحین بیگم کے دل پہ جس نے انھیں نگاہیں چرانے پہ مجبور کر دیا تھا ۔
"وجدان میں کیا کہہ رہی ہوں تم سے سن بھی رہے ہو کے نہیں "
انھوں زچ ہوتے کہا ۔وہ جو اس وقت کراچی روانگی کے لیے اپنی پیکنگ مکمل کر رہا تھا ۔فرحین بیگم کے کے سختی سے پکارنے پہ ہاتھ میں پکڑی طہ شدہ شرٹ کو بریف کیس میں رکھتے انکی جانب مڑا اور کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ نحل کو دروازے پہ کھڑا دیکھ کر دھیما سا مسکرایا ۔۔
" آجاؤ نحل وہاں کیوں کھڑی ہو "
اسکے کہنے پہ فرحین بیگم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔وہ نروٹھا انداز لیے کمرے میں داخل ہوئی۔
تم ہی کچھ سمجھاؤ اسے بیٹا میری تو کوئی سمجھنے کو یہ کہاں تیار ہے ۔
"میں کیا کہہ سکتی ہوں امی "
وہ زومعنی کہتی سر جھٹک کر دونوں بازو سینے پہ لپیٹے گلاس ونڈو کے پاس آ کھڑی ہوئی ۔
                                                         " تمھیں کیا ہوا ہے ناراض ہو کیا مجھ سے ؟"
وجدان کے کہنے پہ ذرہ کی ذرہ نظروں کا زاویہ بدلتے اسے دیکھا ۔
فرحین بیگم کمرے سے جا چکی تھیں ۔
"تو کیا نہیں ہونا چاہیے بھائی"
   خفگی سے کہتے وہ نگاہ پھیر گئی ۔۔
"ہممم مجھے اندازہ ہے "۔
"نہیں ہے بھائی آپ کو اندازہ کوئ بھائی ایسا کرتا کیا کچھ دن میں میری شادی ہے اور آپ جار ہے ہیں "
وہ تاسف سے گویا ہوئ ۔
اسکے روٹھے اندار پہ مسکرا کر اسکے پاس چلا آیا نحل کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے گویا ہوا۔
"گڑیا میں ہمیشہ کے لیے تھوڑی ہی نا جا رہا ہوں میں کوشش کروں گا تمھاری رخصتی تک واپس آجاؤ تم مجھ سے ناراض نا ہو "۔
کہنے کے ساتھ ہلکے سے اسکا رخسار تھپتھپایا .
"میں جانتی ہوں آپ نہیں آئیں گے ٹھیک ہے بھائی میں اسکے لیے آپ سے ناراض نہیں ہوتی پر آپ اپنے فیصلے پہ غور ضرور کر لینا چاہیے ۔۔
"کس فیصلہ بات کر رہی تم"۔
 اپنے تاثرات چھپائے وہ دانستہ انجان بنا۔
"آپ جانتے ہیں میں کس فیصلے کی بات کر رہی ہوں ".
وہ کچھ جتاتے لہجے میں گویا ہوئ چند پل خاموشی سے سرکے اسکی طرف سے
جواب نا پاکر دوبارہ گویا ہوئ ۔۔
"آ پ یہ سب تایا جان کے غلط فیصلوں کی مخالفت میں کر رہے ہیں پر اس سب میں آپکو دریکتا کی تکلیف کیوں نہیں نظر آرہی اسے کس بات کی سزا مل رہی ہے بھائ ۔
وہ تلخی سے کہتے اسے دیکھے گئ شاید اسکے تاثرات پڑھنے کی سعی کر رہی تھی۔ جہاں صرف چٹانوں کی سی سختی تھی ۔۔
"نحل نہیں کرنی مجھے کوئی بات اس بارے میں"
وہ سپاٹ انداز میں کہتے۔
پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ گھساۓ رخ موڑ گیا ۔
وہ یہ نہیں کہہ پایا تھا کہ اسے سزا دے کر وہ خود اپنے لیے مانو پل صراط کا رستہ چن بیٹھا تھا ۔ کبھی کبھی زندگی میں ایسے فیصلے بھی ہم سے سرزد ہو جاتے ہیں یہ ذہن نشین ہوتے ہوۓ بھی کہ وہ فیصلے ہمیں ہر گزرتے دن کے کس طرح ایک نئی اذیت سے دوچار کر سکتے ہیں ۔۔
                    ✩☆☆☆☆☆☆
عجب ہے فسانہ حیات ۔
 اک درد کا سلسلہ مسلسل ہے۔
  بنجر آنکھوں میں اک خواب مسلسل ہے
جن لمحوں کو وصل سے مہکانا تھا ہم نے
اُن لمحوں میں اب ہجر کا عذاب مسلسل ہے۔
ستارے بھی رہ گئے ہیں بجھے بجھے سے یہاں
  اب جگنوں کی تلاش بھی مسلسل ہے
رواں دواں ہے اک قافلہ میرے گرد
مگر تلاش خود کی بھی اب مسلسل ہے۔
    از خود. . شام کے دھندلکے رات کی سیاہی کا استقبال کر رہے تھے ۔ وہ اس وقت اسلام باد کے ایک ہوٹل میں تھرڈ فلور پہ روم میں موجود گلاس وال کے سامنے ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ تھا مے کھڑا تھا ۔ ٹا ئ کی ناٹ ڈھیلی کیے آستینوں کو کہنیوں تک موڑے بے حد کڑوی کافی حلق میں اتارتے وہ مارگلہ کی پہاڑیوں کو دیکھے جارہا تھا گو کہ ڈھلتی شام اور آتی رات کے اوقات میں وہ منظر اتنا واضح نا تھا کہ اسے اس قدر انہماک سے دیکھا جائے مگر وہ جانے کیا اس دھندلے منظر میں کھوج رہا تھا ۔
وہ اسلام آباد ایک بزنس ڈیل کے سلسلے میں آیا تھا یہ ڈیل دراصل ایک نۓ پروجیکٹ کے حوالے سے تھی جو کہ سہگل گروپ آف انڈسٹریز کے ساتھ شروع ہونے جارہا تھا ۔ مصطفیٰ سہگل اور میر سہراب شاہ پرانے دوست تھے اور فل وقت مصطفیٰ سہگل اور انکی فیملی کینیڈا میں قیام پذیر تھی ۔مگر مستقبل میں وہ اپنا بزنس پاکستان میں ہی سیٹ کرنا چاہتے تھے جس کا ذکر ایک ماہ قبل میر سہراب شاہ سے کر چکے تھے وہ اسی حوالے سے میر سہراب شاہ نے انہیں اپنی کمپنی کے ساتھ ففٹی پرسنٹ شئیرز کے ساتھ ایک پروجیکٹ کی پیش کش بھی کی جسے بخوشی قبول کر لیا گیا تھا اور اسی حوالے سے کچھ اہم معاملات تھے جن کے غرض سے ضرغام مصطفیٰ (مصطفیٰ سہگل کے اکلوتے بیٹے ) کو پاکستان آنا پڑا دوسری طرف میر سہراب شاہ نے اس پروجیکٹ کے حوالے سے ساری زمیداری ضارب کے سر ڈال رکھی تھی تبھی اسلام آباد بھی وہ اکیلا ہی آیا تھا ۔ آج بھی وہ ایک اپمورٹنٹ میٹینگ اٹینڈ کر کے کچھ دیر قبل ہی ہوٹل واپس لوٹا تھا اور یہاں کا کام قریباً وہ نبٹا ہی چکا تھا ۔ باہر کا منظر اب مکمل تاریکی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا وہ بھی گلاس وال سے ہٹتے بیڈ کے قریب چلا آیا ۔ کافی کا خالی مگ سائیڈ ٹیبل پہ رکھتے اسکی توجہ سائیڈ ٹیبل پہ پڑے سیل فون کی جانب مبذول ہوئ لب بھینچتتے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا ساتھ سوچوں کا تسلسل بھی ایک ہی سمت کو جا بھٹکا۔
      " افف کس قدر مشکل امر تھا امتشال مستنصر سے دوری اختیار کر نا حواس مختل اور دل کی حالت حد سے سوا تھی ۔ایسے میں وہ دشمن جان اس سے رابطے کا بھی ترک کیے ہوئ تھی یہ کہہ کر کے وہ نیویارک جاکر خود اس سے رابطہ کر لے گی تبھی ضارب کی طرف سے چاہتے ہوۓ بھی اب تک کوئ رابطہ نہیں کیا گیا ۔ وقت بھی ناجانے کتنی بے رحم چال چل رہا تھا ۔ سیل فون میں سیو امتشال کی پیکچر کو تھوڑا زوم کرکے دیکھ کر اسنے یاسیت سے سوچا ۔ جس میں اسکی بے حد دلکش مسکراہٹ واضح تھی
" ہوں وقت کی بے رحم چال "وہ ناداں ابھی جانتا ہی کہاں تھا وقت تو اس سے بڑی ستم ظرفی دیکھانے والا تھا اسکو آنے والے وقت میں ناجانے کتنے ہی ستم منتظر تھے اسکے لیے ۔
              ✩☆☆☆☆☆☆☆
شب و روز لگے بندھے معمول کے تحت گزر رہے تھے ساتھ ہی نا صرف ضارب اور نحل کی شادی کی ڈیٹ فکس کر دی گئی تھی بلکہ شادی کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی تھیں ۔ ہاں البتہ یہ اور بات تھی کہ شاہ ولا کے مکینوں میں اس شادی کو لیکر وہ جو ش وخروش نہیں دیکھائی دیتا تھا جو عموماً اس سے قبل شادیوں میں ہوتا تھا ۔ اور اسکے پیچھے کسی حد تک وجدان کے اچانک لیے جانے والے فیصلے کا ہی ہاتھ تھا ۔ کہنے کو وجدان کی اس سرکشی پہ سہراب شاہ نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ مگر یہ خاموشی مصلحتاً تھی یہ آنے والے طوفان کا پیش خیمہ تھی یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا ۔ فل حال تو راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ وجدان جا چکا اور ضارب بھی ابھی اسلام آباد سے نہیں لوٹا تھا۔ ،
 جبکہ دریکتا تھی کہ وجدان کے جانے کے ساتھ ساتھ اس سے جڑے وہ تمام خواب جو کم عمری میں ہی اسکی آنکھوں کا لازمی جزو بنے تھے انکی ٹوٹی کرچیاں سمیٹے اپنے کمرے کو اپنا مسکن بناۓ ہوۓ تھی۔ اور رہ گی نحل تو وہ جیسے حتیٰ الامکان خود کو ہر چیز سے لا تعلق اور لاپرواہ ہی ظاہر کر رہی تھی ۔ اس وقت بھی وہ بھاپ اڑاتا چاۓ کا کپ تھا مے ڈارک براؤن کلر کے سوٹ میں ملبوس لان چیئر پر آبیٹھی ۔ ہر طرف پھیلی صبح کی روشن کرنیی اسکی بوجھل طبیعت کو بھلی سی لگ رہی تھیں ۔ گھر میں شادی کی تیاریاں ہونے کے باوجود بھی ایک عجیب سی اداسی اور بوجھل پن سا تھا جو شاہ ولا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا وہ بھی اس وقت انھیں اداسیوں کا حصہ لگتی تھی۔ چاۓ لبوں سے لگاۓ وہ گزرے کچھ دنو کو سوچے گۓ۔ یکایک نجانے کیوں ذہن کے پردے پہ بچپن کا منظر جھلملانے لگا ۔
"کیا ہی اچھا تھا وہ بچپن بھی ان سب تلخیوں سے بلکل انجان"۔۔
چاۓ کا کپ واپس ٹیبل پہ رکھتے حسب عادت کپ کے کناروں پر انگلی پھیرتے اسنے سوچا ۔ سنہری بالوں کی تراشیدہ شرارتی دو لٹیں اسکے دونوں گلابی رخساروں پہ گری تھیں ۔ جبکہ نیلی آنکھیں لان کے اطراف میں جا بھٹکی جہاں وہ کبھی زرک اور دریکتا کے ساتھ مل کر کر کٹ کھیلا کرتی تھی ۔ اسے یاد آیا تھا کہ کس طرح زرک ہمیشہ چیٹنگ کر کے انھیں ہرا دیا کرتا تھا ۔ اور اس کے بعد جو دونوں کی جنگ عظیم شروع ہوتی تھی وہ کئ گھنٹے ضرور ہی چلتی تھی ۔اس وقت بھی زرک کو سوچتے اسکے لب اپنے آپ مسکرا دیے ۔زرک کا خیال آتے ہی اسنے ٹیبل پہ پڑا فون اٹھاکر زرک کا نمبر ملایا ۔ جبکہ دوسری طرف کال ریسیو نہیں کی گئی تھی ۔۔
"پتا نہیں کہاں مصروف ہے یہ موصوف "
تین بار فون ٹراۓ کرنے کے بعد اسنے نفی میں سر ہلاتے فون واپس ٹیبل پہ رکھا اور چاۓ ختم کرنے کے بعد کچھ دیر وہاں بیٹھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ مگر اس سے قبل وہ اندر جاتی۔
"ہیلو مادام"!
یکایک عقب سے آئی آواز پہ جی جان سے چونک کر مڑی جہاں کھلنڈر سا لڑکا ہاتھ میں سرخ گلاب تھا مےنحل کی طرف آرہاتھا ۔۔
"زرک تم "۔
اسنے شدید حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات سے کہا۔
"تم کب آۓ ...؟۔
اسکے قریب چلے آنے پہ ایک اور سوال کیا گیا ۔۔
   تبھی جب تم اپنی خیالی دنیا میں میرے۔ بھائی کے ساتھ جھیل سیف الملوک کا دلکش ویو انجوائے کر رہی تھیں ۔
دائیں آنکھ کا کونا دبا کر کہا گو کہ وہ جانتا تھا اس قسم کا فقرہ اچھالنا تھا مکھی کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا ۔
"کیا ہر بات پہ تم لڑکوں پہ فضول ہانکنا فرض ہوتا ہے "۔
اسنے ناک بو چھڑھاۓ کہا اپنی طرف وہ زیادہ دیر حساب بھلا رکھ کیسے سکتی تھی۔
   " ہاں تو تم لڑکیوں پہ کون سا فرض ہوتا ہے ہر چھوٹی سی بات پہ ناک پھولانا ۔
وہ بھی دوبہ دو جواب دے رہا تھا ۔
"اچھا بس بس اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے اور تم تو فائنلز کے بعد آنے والے پھر ابھی سے کیوں نازل ہو گئے ہو ...؟
اسنے حیرت سے استفسار کیا ۔
"کیوں کہ تمھیں کچھ زیادہ ہی جلدی تھی ہاتھ پیلے کروانے کی "۔
وہ زرک ہی کون جو نحل کسی بات سنجیدگی سے لے ۔۔
Are you lying “
 نحل کے لیے اس بات پہ یقین آنا قدرے مشکل تھا بقول نحل کے جتنا وہ اپنی اسٹڈیز کو لیکر خبطی تھا اسے یقین تھا وہ شادی کا سن کر بھی فائنلز سے پہلے نہیں آنے والے تھا ۔
"اب کیا اس کے لیے تم محترمہ ںحل حزب شاہ کو نبض کاٹ کر دیکھاؤں ۔
اس کا انداز سراپا نحل کو تپاتا ہوا تھا۔
اور وہ واقع تپ بھی گئی تھی۔
"ہو گیا دفع ہو جاؤ جار ہی ہوں میں"
وہ پیر پٹختے وہاں سے گزری ۔
" اچھا سنو "۔
وہ عقب سے پکارتے اس کے سامنے آیا ۔
یہ تمھارے لیے یہ تو لیتی جاؤ ۔
اسنے پھولوں کی طرف اشارہ کیا ۔
جنہیں کمال مہارت سے ڈنڈی سمیت توڑ کر اکھٹا کر کے ایک پھول کی مدد سے باندھ کر بکے کی شقل دی گئی تھی ۔
کیا تم میرے لیے لاۓ ہو اسنے کچھ بے یقینی کا اظہار کیا ۔۔
"اف کورس "کہہ کر زرک نے لب دانتوں تلے دباۓ ۔ جبکہ نحل نے ناک کے قریب کر کے تازہ گلابوں کی مہک کو محسوس کرنا چاہا ۔یکایک اسکے ذہن میں جھماکا سا ہواتبھی ایک نظر اطراف میں لگے اپنے جان سے زیادہ پیارے پھولوں کو دیکھا اور سرخ چہرہ لیے زرک کی طرف لپکی ۔
"زرک تم یہ پھول لان سے توڑے ہیں نہ تمھیں تو میں نہیں چھوڑوں گی۔۔
دانت پیستے وہ آپے سے باہر لگتی تھی۔
جبکہ عین اسی مین گیٹ سے شاہ ولا میں داخل ہوتی گاڑی میں موجود شخص کی گھور سیاہ آنکھوں نے انتہائی ناگواری سے منظر دیکھا ۔
 زرک شاہ اور نحل شاہ دو دشمنوں کی طرح پروان چڑھے تھے ۔ حریف پن کچھ ایسا تھا جیسے ان دونوں کی پچھلے کئی نسلیں دشمن ہی چلی آرہی ہوں ۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو وجہ بنا کر کئی گھنٹے دنگا فساد چیخ و پکار رہتی جس سے شاہ ولا کے بڑے بھی شدید جھنجھلا جاتے تھے پہلے پہل تو فرحین اور زرقا بیگم نے دونوں کو مل جل کر رہنے اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑے سے گریز کرنے کا کہتی رہتی پھر وہ دونوں ہی اپنی سمجھائ بجھائی کا رت برابر دونوں پہ کوئی اثر نہ دیکھ کر اتنی عاجز آ گئیں تھی کہ دونوں اگر ایک دوسرے کی جان بھی لے لیتے تو وہ اپنےروز مرہ کے کام چھوڑ کر یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہ کرتی کہ دونوں میں سے کون جان سے گیا ہے ۔
              ✩☆☆☆☆☆☆☆
رات اپنی سیاہی کے ساتھ پوری طرح آب و تاب پہ تھی ۔ چاند نے آج گہرے بادلوں کی اوٹ میں خود کو چھپا رکھا تھا ۔ فضا میں عجیب گھٹن اور سکوت کا پڑاو تھا ۔۔
وہ کمرے کی ملگجی روشنی میں بیڈ کراؤن سے ٹھیک لگاۓ خود اپنے سامنے مجسمہ سوال بنی بیٹھی تھی ۔ دماغ فاتح ٹھہرا تھا جبکہ دل نے اپنی شخصیت تسلیم کرتے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی۔ ایسے میں اسکی صحرا کے مانند پیاسی آنکھوں میں رہے گئے تھے تو کئی شکوہ گلے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں اور سب سے بڑھ ٹکھراۓ جانے کا زخم جس نے اسکی روح تک کو گھائل کر کے رکھ دیا تھا ۔ ہر گزرتے پل میں اسکی اذیتوں میں نئے سرے سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا اندر ہی اندر یہ زخم اسے دیمک کی طرح اسے چاٹ رہا تھا ۔ کئ سوال تھے جو وہ خود سے کرتی جواب نا پا کر بعض اوقات اپنا ہی قصور تلاشتی جب کچھ نہ بن پاتا اور اعصاب پوری طرح ماؤف ہوتے دماغ کے ہر رات سلپینگ پلز لیکر خود کو گہری نیند کی وادیوں میں دکھیل کر کچھ گھنٹے وجدان کی یادیوں چھٹکارا پانے میں کامیاب رہتی ۔
             ✩☆☆☆☆☆☆☆
چند روز بعد **۔
شاہ ولا میں نحل اور ضارب کی شادی کے فنکشنز شروع ہو چکے تھے جس روز ضارب اسلام آباد سے لوٹا دو دن بعد ہی بے حد سادگی سے نحل کو مایوں بیٹھا دیا گیا تھا۔ اور آج مہندی کا فنکشن بھی خوش اسلوبی سے نبٹ گیا تھا ۔ مہندی کے فنکشن کا پورا اہتمام شاہ ولا کے وسیع وعریض لان میں ہی کیا گیا تھا ۔ اس حساب سے کل شادی کا روز تھا۔جبکہ اس وقت پورا شاہ ولا بقیہ نور کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ مہمانوں کی آمد و رفت تھی ۔۔
  دریکتا بھی اب کسی حد تک خود کو سمجھا بجھا کر شادی کی تیاریوں میں دلچسپی لیتی نظر آرہی تھی ۔ جو کہ سب کے لیے خوش گوار کن حیرت کا باعث تھی ۔ یہ جانتی ہوۓ بھی کہ وہ یہ سب صرف ںحل کے لیے کر رہی تھی ۔
            ✩☆☆☆☆☆☆☆
چاۓ کے مگ اُٹھتی تلخی آمیز بھینی بھینی خوشبو کے تیز ہوا کے جھونکے اسے اپنے کمرے سے ملحق ٹیرس میں کھڑے عجیب اطمینان سے سر شار کر رہیں تھیں وہ اس وقت پیریٹ کلر کے ٹخنوں کو چھوتی گھیر دار فراک ملبوس تھی جس پہ گلے میں ہلکی سی گولڈن کڑھائی تھی ۔
گھوٹا کناری لگے لیمن کلر کے دوپٹے کو گلے میں ڈالے ہوۓ تھی ۔ وہ ابھی تک مہندی والے لباس میں ہی تھی جبکہ لمبے سنہری بالوں کی ڈھیلی سی چٹیا بناۓ جن سے نکلتی کچھ۔ شرارتی لٹیں اسکے صبیح چہرے کو چھوتی اسے مزید دلکش بنارہی تھیں ۔بلاشبہ اسکا شمار بے حد حسین لوگوں میں ہوتا تھا جن کے بارے میں حرفِ عام یہ کہا جا سکتا تھا کہ جنہیں بڑی فر صت سے بنایا گیا ہو ۔ کل اسکی شادی تھی اور اس حساب سے آج اسکا اپنے کمرے میں اور اس ٹیرس میں جہاں وہ اس وقت موجود تھی آخری رات تھی ۔ مگر پھر بھی وہ ہر احساس سے عاری حتیٰ الامکان خود کو پر سکون رکھے ہوۓ تھی۔چاۓ کے گھونٹ بھرتے اس نے ریلنگ پہ ہاتھ ٹکا کر لان میں جھانکا جہاں ملگجی روشنی میں اسنے ضارب کو ایک ہاتھ میں سگریٹ سلگاۓ اور دوسرے ہاتھ سے فون کان پہ لگاۓ مسلسل لان کے چکر کاٹتے دیکھا ۔اسے یوں بے چینی سے مسلسل چکر کاٹتا دیکھ کر نحل کچھ اچنبھا ہوا۔ وہ بے ساختہ دو قدم ریلنگ سے پیچھے ہٹی غرض اسے بخوبی اندازہ تھا کہ اپنی طرف اٹھتی ضارب کی ایک نگاہ میں ہی ہمیشہ کی طرح نفرت ہی پاۓ گی ۔
" یہ تنفر و بے اعتنائی مل بھی کس شخص سے رہی تھی جس شخص کے نام کی مہندی اسے لگائی گئی تھی ۔ اسنے گہرا سانس ہوا میں خارج کرتے اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھتے سوچا ۔ کپ میں چاۓ ٹھنڈی ہوچکی تھی اور اسے ٹھنڈی ہمیشہ سے نا پسند تھی ۔ وہ بد مزہ سی ہوکر سر جھٹکتی کمرے میں واپس چلی گئی ۔۔
جبکہ دوسری جانب ضارب لان میں مسلسل ٹہلتے پچھتاؤ ں کی زد میں تھا ۔ امتشال کو لیکر اس کا دل اب کئی طرح کے وسوسوں کا آماجگاہ بنا ہوا ۔ امتشال کی بات مان کر وہ خود مسلسل کوس رہا تھا۔ آخر کیوں وہ اس کی طرف سے غاقل رہا اب تک ۔ اس اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا ۔ اور اب اسکی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ کہیں کسی طور قرار نہیں آرہا تھا۔ وہ ہر مکمن کوشش کر چکا تھا امتشال سے رابطے کی حتیٰ کہ اسکے کچھ دوستوں سے جنہیں وہ جانتا تھا امتشال کی بابت پوچھ چکا تھا مگر سب بے سدھ اُن میں سے کسی کو بھی امتشال کی کچھ خبر نہ تھی ۔
                ✩☆☆☆☆☆☆☆
 اگلی رات بہت سے رنگ لیے ہوئے اتری تو تھی شہر کے فائف اسٹار ہوٹل کی جھلملاتی روشنیوں اور برقی قمقموں میں نحل کا نام کے ساتھ ضارب کا نام جڑ کر ایک نئے میں بندھ گئے تھے ۔ایجاب وقبول کے مرحلہ طہ پانے کے بعد نحل کو ضارب کے ساتھ لاکر بیٹھا گیا تو بے ساختہ سب نے ماشاءاللہ کہہ کر سراہا انکی دونوں کی طرف اٹھتی ہر آنکھ میں بلاشبہ ستائش ابھری ۔دلہن بنی نحل کی چھب ہی نرالی تھی بیوٹیشن کے مہارت سے کیے گئے میک اپ نے اسے مزید دلکش بنا دیا تھا ۔سرخ وسفید رنگت بالا کی معصومیت لیے دل کے صاف آئینے کے عکس میں دلہن کے لباس سے آراستہ یوں دمک رہا تھا گویا اپسرا سی ہو جیسے ۔ مگر نیلی آنکھوں میں بلا کی اداسی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا ۔ جبکہ ضارب کے چہرے پہ اضطراب و ہیجان کی سی کیفیت تھی ۔ جو کہ نا صرف اسکے پہلو میں نحل بلکہ وہاں موجود سبھی نے محسوس کی تھی ۔
                   ✩☆☆☆☆☆☆☆
"مس فٹ ہوں نہ میں اس روم میں..؟ "
دکھڑکتے دل کے ساتھ گہرے کاجل سے مزین آنکھیں اٹھا کر ضارب کے کمرے جو اب سے اسکا بھی تھا طائرانہ جائزہ لیتے کس خیال کے تحت کہا
 لائٹ براؤن انٹیریئر اور آف وائٹ کرٹنز کے علاوہ روم باقی کسی بھی بھی قسم کی ڈیکوریشن سے اس وقت عاری تھا ۔ دریکتا جو اسے کمرے میں لے کر آئ تھی اور بھاری کامدار لہنگا سنھالتے اسے بیٹھنے میں مدد دے رہی تھی اسکی بات پہ سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا کر نفی میں سر ہلایا ۔
"نہیں تو ایسا تو کچھ بھی نہیں کیوں خود کو فضول باتوں الجھا رہی ہو یہ روم تمھارا سمجھی۔
 اور اس کمرے کا مکین بھی".
  اسے سنجیدگی سے سمجھاتے آخر میں اپنی مسکراہٹ چھپاتے شرارات پہ آمدہ ہوئ۔ اسکی بات پہ بنا کچھ کہے نحل سر جھکا گی ناجانے کیوں دل عجیب سی اضطرابی کیفیت کا شکار تھا جسے فلوقت وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی ۔
گولڈن اور پیچ کے امتزاج میں سیاہ ریشمی بالوں کو پشت پہ پھیلاۓ دریکتا بھی خاصی جاذب نظر لگ رہی تھی زیادہ میک اور سے جولری کا استعمال نہیں کیا گیا تھا ۔
"او کے اب تم رسٹ کرو لالہ آتے ہی ہوں گے (وہ ضارب کو ہمیشہ سے لالا ہی کہتی تھی )
مجھے گل آپی (گل رخ) بلا رہی تھیں "کوئ تھا مجھ سے کوئی انکو میں دیکھ لو ذرا انھیں "
" ٹھیک ہے تم جاؤ "۔
نحل نے سرسری کہا۔
"اور ہاں کچھ کھانے کے لیے بجھواؤں تمھارے لیے"۔
اسنے جاتے جاتے پلٹ کر پوچھا ۔۔
"نہیں مجھے بھوک نہیں بس چاۓ بجھوا دینا ".
"ہممم ٹھیک ہے بجھواتی ہوں "۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی وہاں سے جا چکی تھی ۔۔
    نحل نے تاسف سے کمرے سے نکلتے اسکی پشت کو دیکھا وجدان کو لیکر دونوں نے ہی ایک دوسرے سے کوئ بات نہیں کی تھی مگر وہ اس کی تکلیف کا بخوبی اندازہ لگا سکتی تھی ۔ مزید دو تین روز قبل اسکے کمرے میں سلپینگ پلز دیکھ کر شدید پریشان ہو کر رہ گئی تھی ۔ دوسری طرف نہ وجدان نے آنا تھا نا وہ آیا اور نحل نے شدت سے اسکی کمی کو محسوس کیا تھا ۔ اس وقت اسے بات کرنے کا خیال تھا مگر شیدید سر درد اور ذہنی تنائوں کے باعث ارادہ ترک کر گی ۔ گہری سانس بھرتے اس نے بیڈ سے ٹیک ںلگاتے خود کو پر سکون کرنا چاہا ۔ اسے اپنے سر میں شدید ٹیس سی اٹھتی محسوس ہوئ تھی ۔ مرون رنگ کا کامدار لہنگا جس پہ نفیس سا گولڈن کام تھا فل وقت اسے کوفت میں مبتلا کر رہا تھا نجانے ابھی اور کتنی دیر انتظار کرنا تھا ۔ شدید بیزاری سے سوچتے سائیڈ ٹیبل پہ رکھے جگ سے گلاس میں پانی ا ُنڈیلتے ڈرور کھول کر کوئ میڈیسن تلاش کرنی چاہی جو کہ با آسانی اسے مل بھی گئی میڈیسن لیکر ایک بار پھر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے آنکھیں موند گئی۔ ۔
                        ✩☆☆☆☆
 بے مقصد گاڑی سڑکوں پر دوڑاتے وہ سخت ذہنی انتشار کا شکار لگ رہا تھا ۔ رات کے اس پہر ایبٹ آباد کی سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کہ برابر تھا بالآخر اسنے کچھ وقت بیت جانے کے بعد تھک ہار کر گاڑی سڑک کنارے لگائی۔ پیشانی پہ بکھرے بالوں میں ہاتھ۔ پھیر کر گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا ۔ ایک موہوم سی امید کے تحت ایک بار پھر امتشال کا نمبر ڈائل کرنا چاہا مگر اس سے قبل فون کی بیٹری ڈیڈ ہو چکی تھی ۔ اسنے شدید جھنجھلاہٹ کے ساتھ لب بینچ کر فون ڈیش بورڈ پہ اچھالا ۔ سیٹ کی پشت سے ٹکاتے آنکھیں موند کر وہ مظبوط توانا شخص خود کو بے بسی کی انتہاؤں پہ محسوس کر رہا تھا ۔
"کیوں امتشال ۔۔۔! کیوں ... کیا یہ تم نے
میں کہاں تلاش کروں آخر تمھیں ۔
 آنکھیں موندے بوجھل لہجے میں وہ اپنے تخیل میں امتشال سے مخاطب تھا ۔
"تلاش ؟۔
 مگر پھر اگلے ہی لمحے یکایک اس کے دماغ میں جھماکا سا ہوا بے طرح سرخ پڑتی آنکھیں فٹ سے کھولتے اپنی عقل پہ ماتم کرتے کسی غیر مرئی نقطے پہ۔ سوچا۔
"مجھے یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا اگر امتشال نے نیویارک جاکر مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تو اسکا مطلب ہو بھی تو سکتا ہے وہ اب تک نیو یارک گئی ہی نہ ہو
 مائی گاڈ مجھ یہ پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھے ۔ اگینشن میں چابی گھماتے اسنے ایک بار پھر اپنی عقل پہ ماتم کیا۔
مائی گاڈ مجھ یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا مجھے ۔ اگینشن میں چابی گھماتے اسنے ایک بار پھر اپنی عقل پہ ماتم کیا۔
اسٹیرنگ پہ ایک ہاتھ جماۓ دوسرے ہاتھ پہ بندھی رسٹ واچ پہ نگاہ سرسری نگاہ دوڑائی جو کہ ڈیڑھ بجے کا عندیہ دے رہی تھی ۔ گو کہ اس وقت امتشال کے گھر جانا غیر مناسب تھا مگر دل کی حالت اس قدر خراب تھی کہ اسے مناسب غیر مناسب سے کوئ سروکار نہ تھا ۔ گاڑی امتشال مستنصر کے گھر کے رستے پہ ڈالتے وہ اس وقت کسی اور کو نہیں سوچ رہا تھا یہ بھول کر کے وہ اب سے مخض کچھ گھنٹے پہلے ہی کسی اور کو اپنے نکاح میں شریک کر چکا تھا ۔ اپنے تئیں اپنی منزل کی طرف رواں تھا ۔ پر وہ ناداں بہت دیر کر چکا ۔ وہ جسے اپنی منزل کہہ رہا تھا وہ بس پیچھے رہ جانے والے پڑاؤ تھا ۔ امتشال مستنصر تو سراب تھی اب۔ ۔
 زندگی کے کچھ حقائق بھی کس قدر تلخ ہوتے ہیں۔ حالات کی گرد میں کچھ وقت کے لیے ہم سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں جن سے لاعلم رہنا ہمیں زندگی کا سب سے بڑا خسارا لگتا ہے درحقیقت اصل خسارا تو اُن حقائق کا ہم واضح ہو جانا ہوتا بے شک لاعلمی ایک نعمت ہے اور آگہی ایک عذاب اور بعض اوقات تو یہ آگہی کے لمحے موت کے مترادف ہوتے ہیں۔
ضارب شاہ کے لیے بھی یہ گزرتی رات بہت سی اذیتیں لیے ہوئی منتظر تھی ۔
                   ✩☆☆☆☆☆☆☆۔

   0
0 Comments